Pages

Tuesday, 27 December 2011

مجھے دے کے جلوۂ دلرُبا وہ تو چُھپ گئے ہیں نقاب میں

مجھے دے کے جلوۂ دلرُبا وہ تو چُھپ گئے ہیں نقاب میں
مرا حالِ دل بھی تو پوچھتے میں اُجڑ گیا ہوں شباب میں
تِرے غم سے پہلےخوشی نہ تھی تِرے غم کے بعد خوشی نہیں
مِری جاں تھی جب بھی عذاب میں مِری جاں ہے اب بھی عذاب میں
مجھے مئے کشی سے غرض نہیں مِری مے کشی تِری دِید ہے
تِری آنکھ میں جو سرور ہے وہ نشہ کہاں ہے شراب میں
نہیں بوالہوس کہ میں ہر جگہ تِرے عشق کا کروں تذکرہ
تِرا عشق دل میں نِہاں ہے یوں کہ ہو برق جیسے سحاب میں
مجھے بزمِ ناز میں جعفری! جو ملے جگہ تو کہاں ملے
میں غریب سادہ مزاج ہوں نہ حساب میں نہ کتا ب میں
ڈاکٹر مقصود جعفری

No comments:

Post a Comment